Friday 29 May 2020

میت کی طرف سے روزے کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے:
عن عائشہ قالت قال رسول اللہ ﷺ  من مات وعلیہ صوم صام عنہ ولیہ.) متفق علیہ مشکوۃ جلد 1 صفحہ 178(
یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص مرجائے اس کی طرف سے اس کے ولی روزہ رکھ لیں ۔ یعنی کسی کے ذمے کچھ فرض روزے رمضان شریف کے رہ گئے اور اس کا انتقال ہوگیا تو وہ روزے اس کا ولی اس کی طرف سے قضا کرلے ۔ یہ حدیث بخاری مسلم کی ہے علاوہ بالکل صحیح ہونے کے صاف ہے کہ مردے کی طرف سے اس ولی اس کے قضا شدہ روزے رکھ سکتا ہے بلکہ بخاری مسلم میں ہے کہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا جس کا انتقال ہوگیا تھا آپ نے اس کی لڑکی کو اس کی طرف سے ان روزوں کے رکھنے کا حکم دیا ۔
اعتراض:  پھر  حنفی مذہب  پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب اعلیٰ اور سب سے معتبر کتاب ہدایہ کتاب الصوم ص 203 میں ہے ولا یصوم عنہ الولی
یعنی میت کی طرف سے اس کا ولی روزہ نہ رکھے ۔ حنفی بھائیوں ، حدیث بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ اسے چھوڑ دیں گے ؟؟ نہ مانیں گے ؟؟ اور جو فقہ میں ہے اسے تھام لیں گے ؟؟ اور اس پر ایمان لائیں گے ؟ (شمع محمدی ص43 ظفر المبین حصہ اول ص 156 ، فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص52 و ص 132 ).
الجواب:
امام ابو حنیفہ ؒ کا مسلک اس مسئلے میں یہ ہے کہ ایسی عبادت جو محض بدنی ہیں  جیسے نماز اور روزہ ان میں کسی دوسرے آدمی کی نیابت کرنے سے یہ عبادتیں ادا نہیں ہوتیں ۔ البتہ جو عبادات محض بدنی نہیں بلکہ مالی بھی ہیں ۔ جیسے حج ان میں اگر اصل شخص عاجز ہوجائے تو دوسرا شخص اس کا نائب بن کر اس کی طرف سے عبادات ادا کرسکتا ہے ۔ رہیں وہ عبادات جو محض مالی ہین جیسے زکوٰۃ اور صدقہ فطر تو ان میں مطلقا نیابت درست ہے ۔
اس کی تفصیل سے واضح ہے کہ امام صاحب کے نزدیک نماز یا روزہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نائب بن کر ادا نہیں کرسکتاالبتہ روزے کا فدیہ دوسرے شخص کی طرف سے ادا کیا جاسکتا ہے ۔ یہی مسلک امام شافعیؒ امام مالک ؒ اور جمہور اہل علم کا ہے اور اس پر صریح اور واضح دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مد کھانا کھلا دے ۔ ( مشکل الآثار جلد 3 صفحہ 141 ) ابن حجر ؒ نے تلخیص الحبیر جلد 2 صفحہ 209 میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے )
(2) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ۔ جو شخص مرجائے اور اس کے ذمے مہینے کے روزے لازم ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ ( ترمذی جلد 1 ص 152 ۔ عمدۃ القاری میں اس کی سند کو امام قرطبی کے حوالے سے حسن قرار دیا گیا ہے )
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عمرہ بنت عبد الرحمن نے پوچھا کہ میری والدہ وفات پاگئی ہیں اور ان کے ذمہ رمضان کے روزے باقی تھے ۔ تو کیا میں ان کی طرف سے قضا کرلوں ؟؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نہیں بلکہ اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین پر صدقہ کرو ۔ یہ تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے ۔
( مشکل الآثار جلد 3 صفحہ 142 ۔ المحلی ابن حزم جلد 7 صفحہ 4 علامہ ماردینی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ الجوہر النقی جلد 4 ص 25 )
(4)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے ذمے رمضان کے روزے باقی ہوں اور وہ مرجائے  تو اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے ، ( مصنف عبد الرزاق جلد 4 صفحہ 237)
(5) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف سے ہرگز نماز نہ پڑھے اور نہ دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے ۔ بلکہ اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کردو یا ہدیہ دے دو ۔
( مصنف عبد الرزاق جلد 9 صفحہ 61 ، سنن الکبریٰ بہیقی جلد 4 صفحہ 254 ، موطا امام مالک صفحہ 245 )
(6) علاوہ ازیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہو ۔ چنانچہ امام مالک ؒ فرماتے ہیں میں نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یا تابعین ؒ میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ وہ سب اپنا عمل اپنے ہی لئے کرتے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کی طرف سے عمل نہیں کرتا ۔ ( نصب الرایہ جلد 2 صفحہ 463)
رہیں وہ روایات جو صاحب شمع محمدی نے نقل کی ہیں ان کا مندرجہ بالا قوی اور صحیح دلائل کی روشنی میں ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو مذکورہ احادیث کے خلاف نہ ہو بالخصوص جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات میں بظاہر نبی کریم ﷺ نے نیابتا روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ ان کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں لیکن ان دونوں کا فتوی اس کے خلاف ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
چنانچہ ان روایات کی ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ پہلے نیابتا روزہ رکھنے کی اجازت تھی جو کہ بعد میں منسوخ ہوگئی اور اس کے منسوخ ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو کہ اجازت کی روایات کے راوی ہیں ۔ ان کا فتوی اس کے خلاف موجود ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر اجازت منسوخ نہ ہوگئی ہوتی تو یہ دونوں حضرات اس کے خؒاف فتوی ٰ نہ دیتے ۔
دوسری توجیہ یہ ہے کہ ان احادیث کا مطلب یہ نہیں کہ میت کی طرف سے نائب بن کر روزہ رکھا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی طرف سے نفلی روزہ رکھ کر اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچادے ۔
تیسری توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے یعنی اس کی طرف سے روزہ رکھنا کھانے سے اس کا تدارک کردینا ہے ۔  پس جب مساکین کو کھانا دینے سے وہ میت روزے سے بری ہوگی تو گویا اس شخص نے اس کی طرف سے روزے ادا کئے ۔
نوٹ ۔ ان دو روایات کے علاوہ جو صاحب محمدی نے نقل کیں ہیں ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بخاری مسلم میں روزے کی قضاء کے متعلق آئی ہے۔ مگر اس میں لفظ صوم نہیں بلکہ قضاء کا لفظ ہے اور وہ کھانا دینے ( یعنی فدیہ ) سے بھی حاصل ہوجاتا ہے ۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ دلیل نمبر 4 میں پہلے گزر چکا ہے ۔

No comments:

Post a Comment