صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے
عن جابر ان رسول ﷺ نهی یوم خیبر عن لحوم الحمر الاھلیۃ واذن فی لحوم الخيل ( متفق علیہ مشکوۃ صفحہ 359
جلد دوم)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن پالتو گھریلو گدھوں کے گوشت
سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے حضرت اسماء بنت ابی ابی بکر رضی اللہ
تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس
کا گوشت کھایا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے ہم نے گھوڑے کا گوشت کھایا ۔
یہ حدیث علاوہ اعلیٰ درجہ کی صحیح ہونے کے کھلی دلیل صاف لفظوں میں ہے کہ گھوڑا
حلال ہے ۔
اعتراض
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
الجواب
گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں امام ابو حنیفہ ؒ کا صحیح مسلک
یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے ۔ چنانچہ امام محمد ؒ کی الجامع الصغیر میں امام ابو
حنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ میں گھوڑوں کا گوشت کھانے کو مکروہ سمجھتا ہوں (ص) علامہ
وحید الزماں غیر مقلد بھی امام صاحب کا
مذہب یہی بتاتے ہیں وہ فرماتے ہیں ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک بھی کراہت گھوڑے کی
تنزیہی ہے ( ابو داؤد مترجم جلد سوم صفحہ 164 )
فقہاء احناف میں سے بعض نے اس کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا
ہے اور بعض نے کراہت تحریمی پر لیکن صحیح یہی ہے کہ امام صاحب ؒ کے نزدیک یہ کروہ
تنزیہی ہے کیونکہ گھوڑے کا جھوٹا ان کے نزدیک پاک اور پیشاب نجاست خفیفہ ہے جبکہ
حرام جانوروں کے بارے میں ان کا مسلک یہ ہے کہ ان کا جھوٹا ناپاک اور پیشاب نجاست
غلیظہ ہے ( کتب فقہ ) گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں یہی مسلک حضرت عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ عنہ ، امام مالک ؒ امام اوزاعی ؒ ، حکم بن عیینہ ؒ ، امام زہری ؒ اور
امام ابو عبید ؒ سے منقول ہے امام ابو حنیفہ ؒ اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ
گھوڑوں کا گوشت کھانا اگرچہ حلال ہے لیکن ان کی تخلیق کا اصل مقصد ان کے گوشت کا
استعمال نہیں بلکہ ان پر سواری کرنا اور میدان جنگ میں ان سے خدمت لینا ہے ،
چنانچہ قرآن مجید نے سورہ نحل میں چوپایوں کا ذکر کرکے ان کے فوائد و منافع ان کے
گوشت کے استعمال کا بھی ذکر کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ والانعام خلقھا لکم فیھا دفع و
منافع ومنھا تاکلون ( سورۃ نحل آیت 5 )
اور اسی نے چوپایوں کو بنایا ان میں تمہارے جاڑے کا بھی سامان ہے اور بھی بہت سے
فائدے ہیں اور ان میں سے کھاتے بھی ہو ۔
لیکن اس کے متصل بعد گھوڑوں ، خچروں اور گدھوں کا ذکر کیا
ہے والخیل وا لبغال و الحمیر لترکبوھا ( سورۃ نحل آیت 8) اور گھوڑے اور خچر اور
گدھے بھی پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو ۔
ان کا یہ فائدہ تو بتایا ہے کہ تم ان پر سواری کر سکو ،
لیکن ان کے گوشت کے استعمال کا ذکر نہیں کیا ۔
(1) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے اور خچر اور گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ (
نسائی جلد 2 صفحہ 176 ابوداؤد جلد صفحہ
175 طحاوی جلد 2 صفحہ 295 سنن دار قطنی جلد 4 صفحہ 287 )
(2) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضور ﷺ نے
گھوڑوں کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے ( محلی ابن حزم جلد 7 صفحہ 408 )
نہی اور اجازت کی ان دونوں روایتوں میں اسی طریقے سے تطبیق
دی جاسکتی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں ۔
بعض اہل علم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ( اجازت والی )
اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی ( نہی والی ) روایت میں یوں تطبیق دی ہے کہ حضرت
جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث فی الجملہ جواز پر دلالت کرتی ہے جبکہ حضرت خالد رضی
اللہ عنہ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ بعض حالات مین گھوڑوں کا گوشت کھانا منع
ہے ۔ کیونکہ خیبر میں گھوڑے بہت کم تھے اور مسلمانوں کو جہاد کے لئے ان کی ضرورت
تھی ۔ یوں جس طرح اجازت روایت نہی معارض کے معارض نہیں رہتی اس طرح نہی کی روایت
کی بنا پر بھی گھوڑوں کی گوشت کو مطلقا مکروہ نہیں کہا جاسکتا چہ جائیکہ ان کو حرام
قرار دیا جائے ۔ اور دار قطنی میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت میں آیا ہے ۔
کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہمارے پاس کچھ گھوڑے تھے جب وہ
مرنے کے قریب ہوگئے تو ہم نے انہیں ذبح کرکے کھا لیا ( یہ روایت صاحب شمع محمدی نے
بھی نقل کی ہے مگر کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا )امام دار قطنی ؒ نے اس روایت ( سے
ثابت ہونی والی اجازت ) کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ ایک مخصوص واقعہ تھا اور شاید ان
کے گھوڑے اتنے بوڑھے ہوچکے تھے کہ جہاد میں ان سے کوئی کام نہیں لیا جاسکتا تھا ۔
معلوم ہوا کہ گھوڑوں کا گوشت کھانے سے نہی ان کے بذات خود حرام ہونے کی وجہ سے
نہیں بلکہ ایک خارجی امر ( یعنی جہاد میں ان کے استعمال ہونے ) کی وجہ سے ہے اور
یہ تطبیق ایک نہایت عمدہ تطبیق ہے ۔ ( فتح الباری جلد 9 صفحہ 652 )۔
جونا گڑھی کا یہ کہنا کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف
ہے بالکل جھوٹا ثابت ہوا ماخوذ ( امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور عمل بالحدیث صفحہ 119
، فتح المبین فی کشف مکائد غیر المقلدین صفحہ 260 )۔
No comments:
Post a Comment