Monday 9 September 2019

عورت کی باری باندھنے کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے:
عن ابی قلابہ عن انس قال من السنۃ  اذا  تزوج  الرجل الکبر علی الثیب اقام عندھا سبعا و قسم و اذا  تزوج  الثیب اقام عندھا  ثلثا  ثم قسم قال ابو قلابۃ ولو شئت لقلت ان انسا رفعہ النبی ( متفق علیہ مشکوۃ جلد دوم صفحہ 289)
یعنی رسول اللہ کی سنت یہی ہے کہ بیوی والا جب اپنا اور نکاح کرے تو اگر کسی کنواری سے کیا ہے تو سات راتیں اس کے پاس گزارنے کے بعد باریاں تقسیم کرے ۔اور اگر کسی رانڈ سے کیا ہے تو تین راتیں اس کے پاس گزار کر پھر باریاں تقسیم کرے ۔ یہ حدیث بخاری و  مسلم کی ہے اور صاف لفظوں میں ہے کسی تشریح کی ضرورت نہیں ۔
اعتراض
پھر فقہ حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب سے اعلیٰ اور سب سے معتبر کتاب ہدایہ کتاب النکاح باب القسم ص 329 میں والقدیمۃ و الجدیدۃ سواء ۔
یعنی پرانی بیوی اور نئی کی ہوئی باریوں میں برابر کی حقدار ہیں یعنی اگر پرانی پر کی ہے اور وہ کنواری ہے تو سات راتیں اس کے پاس گزار کر پھر باریاں باندھے اور اگر رانڈ ہے تو تین راتوں کا حق اسی کا ہے پھر باریاں باندھے ایسا نہ کرے بلکہ شب اول سے ہی باریاں مقرر کردے ۔ حنفی بھائیوں،  حدیث بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔ کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ چھوڑ دیں گے نہ مانیں گے ؟؟ اور جو فقہ میں ہے اسے تھام لیں گے ؟؟ اور اسی پر ایمان لائیں گے ؟؟
شمع محمدی ص 41 ظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین حصہ اول ص 182 فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص 59

 اصل میں یہ اعتراض صاحب شمع محمدی نے ظفر المبین سے سرقہ کیا ہے ۔
جواب
اس اعتراض کا جواب اسی زمانہ میں مولانا منصور علی خان مراد آبادی شاگرد رشید حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے فتح المبین فی کشف مکائر غیر مقلدین کے ص 192 پر دے دیا تھا ۔ فتح المبین سے ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں ۔
  مولانا  لکھتے  ہیں مذہب امام صاحب کا اس مقام پر قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے ۔ اعتراض مخالفت کتاب و سنت کا ان پر نہیں ہوسکتا ۔ ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ اور امام احمد اور امام حاکم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے ۔
( 1 ) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کی دو عورتیں ہوں پس ( وہ خاوند ) مائل ہو طرف ایک کے تو قیامت کے دن وہ شخص آئے گا اس حال میں کہ منہ اس کا ٹیڑھا ہوگا ۔ اور ابو داؤد اور نسائی اور ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے
( 2 )کہ رسول اللہ ﷺ قسمت کرتے اور برابر کرتے اور فرماتے خدایا یہ تقسیم وہ ہے جو میرے اختیار میں ہے پس غیر اختیاری میں مجھ کو ملامت نہ کرنا یعنی بعض سے قلب بے اختیار مائل ہے ۔
( 3 ) اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ یعنی پس اگر خوف کرو تم کہ عدل نہیں ہوسکے گا تو ایک ہی عورت کرو ۔
پس قرآن و  احادیث سے معلوم ہوا کہ ازواج میں خواہ وہ باکرہ ہوں خواہ ثیبہ عموما برابری چاہیئے ۔
جس حدیث میں شروع نکاح میں باکرہ کے واسطے سات روز اور ثیبہ کے واسطے تین روز کا ذکر ہے حنفیہ اس کا انکار نہیں کرتے مگر یہ کہتے ہیں کہ جتنے دن اس کے پاس رہے گا اتنے ہی دن پہلی کے پاس بھی رہنا پڑیگا ورنہ قرآن و حدیث کی مخالفت لازم آئے گی ۔ اور مسلم کی حدیث جس میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کیا اور تین روز تک ان کے پاس رہے اور فرمایا کہ تم چاہو تو سات دن رہوں مگر سات سات دن اوروں کے پاس بھی رہنا پڑے گا ( یعنی دوسری ازواج کے )
اس حدیث میں آپ کا یہ فرمانا کہ پھر اوروں کے پاس بھی اس قدر رہنا ہوگا اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ برابری چاہیئے ۔ البتہ بوجہ ابتدائے نکاح کےباکرہ کے پاس سات روز کی اجازت اور ثیبہ کے پاس تین روز کی اجازت دی گئی ہے جس کو فقہ حنفی تسلیم کرتی ہے مگر بعد میں دوسری عورتوں کے ساتھ بھی اتنے اتنے ہی دن رہے گا تاکہ برابری بھی ہوجائے ۔ اور قرآن و حدیث کے مخالف لازم نہ آئے ۔

No comments:

Post a Comment