Thursday 6 February 2014

نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا - عورت کی شرمگاہ پر نظر پڑنا

نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا - عورت کی شرمگاہ پر نظر پڑنا
دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو شہوت رانی میں اتنا اگے بڑھا کہ نماز میں بھی ستر عورت کا انکار کر دیا چنانچہ فتویٰ دیا کہ ہر کہ در نماز عوتش نمایاں شد نمازش صحیح باشد(عرف الجادی ص۲۲) یعنی پوری نماز میں جس کی شرم گاہ سب کے سامنے نمایاں رہی اس کی نماز صحیح ہوتی ہے۔ اما آنکہ نماز زن اگرچہ تنہا باشد یا بازناں یا باشوھرر یا باد دیگر محارم باشد بے ستر تمام عورت صحیح نیست پس غیرمسلم ست (بدور الابلہ نواب صدیق حسن خان ص۳۹) یعنی عورت تنہار بالکل ننگی نماز پڑ سکتی   ہے۔ عورت دوسری عورتوں کے ساتھ ننگی نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، میاں بیوی دونوں اکھٹے مادر زاد ننگے نماز پڑھین تو نماز صحیح ہے ، عورت اپنے باپ بیٹے بھائی چچا ماموں سب کے ساتھ مادر زاد ننگی نماز پڑگے تو نماز صحیح ہے۔
یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجبوری کے مسئال ہوں گے رعلامہ وحید الزمان وضاحت فرماتے ہیں ولو صلی عرباتاً ومعہ ثوب صحت صلونہ(نزل الابرار ج۱ ص۶۵)

یعنی کپڑے پاس ہوتے ہوئے بھی ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے۔
آخر ابو جہل اور مشرکین مکہ بھی تو کپڑوں کے بااوجود اتا ر کر ننگے طواف کیا کرتے تھے، نماز میں شرمگاہ کا ڈھانکنا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک شرط ہے جس کی تقلید حرام ہے، ابو جہل کے نزدیک تو شرط نہیں اس کی تقلید کرلی گئی فقہ حنفی میں تو یہاں تک احتیاط تھی کہ نماز باجماعت میں عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوجائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے لیکن لامذیب اتنا عرصہ بھی عورت سے دور نہیں رہ سکتے تھے اس کو فقہ کا مسئلہ  کہہ کر ماننے سے انکار کردیا اور نزل الابرار میں صرحتہ لکھ دیا کہ مرد عورت جماعت میں ساتھ ساتھ نماز پؑھ لیں نماز فاسد نہیں ہوتی ، اب ظاہر ہے کہ عورت مرد کے ٹخنہ ، کندھے سے کندھا اور ٹانگوں سکو خوب چوڑا کرکے کھڑی ہو گی، حنفی مذہب ممیں عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم تھا تاکہ اس کے ستر کا احترم رہے ، لامذہبوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ بالکل مردوں کی طرح خوب اونچی ہو کر سجدہ کریں بازو بیٹ اور پسلیوں سے اتنے دور ہوں کہ درمیان سے بکری کا بچہ گزر سکے، ہندہ گنگا کا غسل بھی کرتے ، دیوی کا درشن بھی، لامذہب اس درشن میں کنکن امور پر توجہ دیتے تھے فرماتے ہیں۔”بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو جو شہوت کے مارے دانت رگڑر رہی ہو اور جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو۔(لغات الحدیث علامہ وحید الزمان غیرمقلد) عورت کو خوبصورتی قائم رکھنے کا نسخہ بھی بتایا گیا کہ  ”عورت کو زیر ناف بال استرے سے صاف کرنے چاہئیں اکھاڑنے سے محل ڈھیلا ہو جاتا ہے۔(فتاویٰ نذیریہ ) اب ایسی حالت کہ مرد عورت ننگے نمازیں پڑھ رہے ہوں عورت سجدہ بھی کھل کر کر رہی ہو عورت کی شرمگاہ پر نظر پڑنا لازمی تھا ، ہو سکتا تھا کہ کوئی ذرا جھجت محسوس کرتا اس لئے اسے بتا دیا گیا کہ ہچییں دلیلے برکرااہت نظر ددرباطن فرج نیا مدہ (بدور الاہلہ ص۱۷۵) عورت کی شرمگاہ کے اندر جھانکنا بالکل مکروہ بھی نہیں اور چوتڑوں پر نظر ہر وقت رہے گی اس لئے فتویٰ  دیا کہ ”در جواز استمتاع وغیرہ از فخذین وظاہر الیتین ونحوآں خود ہیج شک و شبہ نہ باشد و سنت صحیحہ بداں دار د گشتہ“ (بدور الابلہ ص۱۷۵) یعنی چوتڑوں اور رانوں سے فائدہ اٹھانا بے شک و شبہ جائز ہے بلکہ سنت صحیحہ سے ثابت ہے اب کون  غیرمقلد مرد ہو گا جو اس صحیح سنت پر عمل نہ کرے خاص طور پر جبکہ یہ سنت مردہ بھی ہو چکی ہو اور ااس کو زندہ کرنے  میں سو شہید کا ثواب بھی مے تو ہم خرماد ہم ثواب پر عمل کیسے چھوڑا جائے۔ اب اس ڈرامے میں اگر مرد کو انتشار ہو جائے تو وہ عضو مخصوص ککو ہاتھوں سے زور سے دبائے ہوئے نماز پڑھتا رہے۔(نزل الابرار ) ایسے وقت میں  تو رفع یدین بھول جائے گی کیونکہ بڑے اہم کام مین  مشغول ہیں ایسے وقت میں عورت کی شرمگاہ سے رطوبت خارج ہو تو بھی مضائقہ نہیں کیونکہ عورت کی شرمگاہ کی رطبت پاک ہے۔(کنز الحقائق ص۱۶ ، نزل الابرار ج۱ص۴۹ تیسیر الباری ج۱ص۲۰۷) اور اگر منی بھی بہہ جائے تو کیا خوف وہ بھی تو  پاک ہے۔(عرف الجادی ص۱۰،نزل الابرار ج۱ص۴۹، کنز الحقائق ص۱۶ ،بدور الابلہ ص۱۵ ، تیسیر الباری ج۱ص۲۰۷) اور اتنا ہی نہیں بلکہ ایک جگہ لکھا ہے ایک ”ہمارے مذہب میں ایک قول کے مطابق منی کا کھانا جائز ہے“۔(فقہ محمدیہ ج۱ ص۴۶)
اور یہ سب کچھ قرآن اور حدیث کے نام پر ہو رہا  تھا اور رات دن تقریر و تحریر کے ذریعہ یہی اعلانات کئئے جاتے تھے کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن و حیدث کا مسئلہ ہے تو احناف نے پوچھ لیا کہ ذرا ان مسائل پر آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ پیش فرمائیں تو ان کے عمل بالحدیث کا بھانڈا چور ستے پھوٹ گیا، بجائے احادیث پیش کرنے کے  لگے فقہا احناف کو گالیاں بکنے، آج بھی آپ  اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ہم ان سے ثبوت مانگتے ہیں کہ اپنی نماز کا ہر ہر جزئی  مسئلہ احادیث صحیحہ سے ثابت کرو تو اس کی بجائے فقہاء کو گالیاں  بکنا شروع کر دیتے ہیں ماب جس فرقہ کی  شہوت رانی کا یہ عالم ہو وہ قران کیا یاد کر سکتے ہیں یا یاد کیا ہو ا قران انہیں کب یاد رہ سکتا ہے تو انہوں نے نمازوں میں قران ہاتھ مں لے کر قرأت پڑھنا شروع کر دیاس پر جب حدیث مرفوع کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ کسی امتی کا قول و فعل ان کے لئےے دلیل نہیں بن سکتا تو جواب میں حدیث پیش کرنے کی بجائے عوام میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ حنفیوں کے نزدیک قران دیکھ کر نماز میں پڑھنا جائز نہیں اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ساری فقہ قرآن و حیدث کے خلاف ہے۔
نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا:۔
ہمارے ہاں نماز میں قرآت یعنی قران پڑھنا تو فرق ہے اگر مقدار فرض قرأت بھی نہ پڑھی  تو نماز باطل ہے ہاں قرآن ہاتھ میں لے پڑھنے میں اس کا اٹھانا ، اس کے اوراق کو الٹ پلٹ کرنا ، مستقل اسی پر نظر جمائے رکھنا ایسے افعال ہیں جو نماز سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں پھر قرآن سے تعلیم حاصل کرنا یہ بھی تعلیم و تعلم ہوا قرأت تو  نہ ہوئی م یہ سب باتیں عمل کثیر ہیں اور ایسا عمل کثیر جو افعال نماز سے تعلق نہ رکھتا ہو اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ (ہدایہ عالمگیری) تاہم ہمیں کوئی ضد نہیں اگر آپ کسی صحیح صریح غیرمعارض حدیث سے ثابت کر دیں کہ قرآن اٹھانے ، ورق الٹنے ، اس سے تعلیم حاصل کرنے سے عمل کثیر نہیں بنتا اور نماز فاسد نہیں ہوتی تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ ہمارا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن حدیث کانام لے کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے آج تک ایک حدیث بھی پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی قیامت تک کر سکیں گے ان شاء اللہ العزیز۔
امام ترمذیؒ نے حضرت رفاعہ بن رافع اور ابو داؤد و نسائی نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے حدیث روایت کی ہے ایک شخص کو اتنا قرآن بھی یاد نہ تھا جتنا نماز میں فرض ہے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ”تم قرآن کی  بجائے حمد و ثنا پڑھ لیا کرو“ ظاہر ہے کہ قرأت نماز میں رض ہے اس شخص کو اتنا قرآن زبانی یاد نہ تھا اگر دیکھ کر پڑھنے سے نماز جائز ہو تی تو آپﷺ اس سے پوچھتے کہ دیکھ کر پڑھ سکتے ہوو یا نہیں اور دیکھ کر پڑھ لینا حفظ سے آسان ہے، آپ نے اس کو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہوا کہ دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں۔  حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں تھاذا امیر المومنین عمرؓ ان نوم الناس فی المصحف روزد ابن ابی داؤد (کنز العمال ج۴ ص۲۴۶) حضرت عمر ؓ نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر نمازیں پڑھائیں تو احناف کا یہ مسئلہ حدیث رسول اللہﷺ فرمان خلیفہ راشد اور قیاس شرعی سے ثاہت ہے کہ یہ معل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے اور لام؟ذہبوں کامسئلہ حدیث کے خلاف ہے۔
نماز میں عورت کو دیکھنا:۔
فقہ حنفی میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ نماز پڑھتے ہوئے عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے ۔
۱۔ احادیث میں ایک اختلافیہ ہے عورت نمازی کے سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔(مسلم ج۱ص۱۹۷)
۲۔ حائضہ عورت سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔(ابو داؤد ، نسائی ابن ماجہ)
۳۔ حائضہ عورت بھی سامنے لیٹی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی (بخاری ج۱ ص۷۴ مسلم جج۱ص۱۹۸)
یہ چاروں حدیثیں صحیح ہیں اور آپس میں متعارض ہیں ،علماء احناف ان میں یہ تطبیق  بیان کرتے ہیں کہ نماز تو نہیں ٹوٹتی البتہ نماز کا خوشوع باطل ہو جاتا ہے۔ (شروح حدیث)
جب احناف کے نزدیک عورت کپڑے پہن کر بھی سامنے سے گزر جائے تو نماز کا خشوع باطل ہو جاتا ہے تو پھر احناف پر یہ بہتان باندھنا کہ ان کے نزدیک نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے کب  جائز ہے کب جائز ہو سکتا ہے بلکہ احنفا کے نزدیک تو عورت کپڑے پہنے ہوئے بھی مرد کے دائیں بائیں جماعت میں شریک ہو جائے تو مرد کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ آخیر نا ابو حنیفۃ عن حماد عن ابراھیم قال اذا صلت المرأۃ الی جانب الرجل و کانا فی صلوٰۃ واحدیۃ فسدت  صلوتہ قال بہ ناخذ و ھو قول ابی حنیفۃؒ(کتاب الآثار امام محمد ص۲۷) بلکہ فقہ حنفی میں تو یہ صراحت ہے ولو صلی الی وجہ انسان بکرہ (عالمگیری ج۱ ص۱۰۸) یعنی نماز میں  کسی انسان مرد یا عورت کے چطہرے کی طرف توجہ رکھنا بھی مکروہ ہے تو شرمگاہ کی طرف دیکھنا کیسے جائز ہو گا۔

ہاں ایک بات اچانک نظر  پڑجانا جیسا کہ ابو داؤد کی حدیث میں آتا ہے کہ عمرہ بن سلمی جب نماز پڑھاتے تھے تو ان کے چوتڑ ننگے ہوتے تھے، عورتیں کی نماز میں نظر امام صاحب کے چوٹر پر پڑتی تھی ، انہوں نے نماز کے بعد کہا امام صاحب کے چوتڑ تو ہم سے چھپا لو۔ اب ہ  حدیث میں کہیں نہیں آتا کہ ان عورتوں کو دبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ نہ ہی محدثین اور شراح حدیث نے اس حدیث  پر یہ باب باندھا ہے کہ نماز مییں شرمگاہ پر نظر پڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے  ، اگر حدیث صحیح ہو تو وہ پیش فرمائیں ہم ہر گز ضد نہیں کریں گے ہم تسلیم کریں  گے کہ واقعی یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن  یہ قیامت تک ایسی حیدث پیش نہیں کر سکیں گے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ طاہرہ استر احت میں ہوتی تھیں آپﷺ جب سجدے میں جاتے تو  ان کے پاؤں  کو چھو دیتے وہ پاؤں سمیٹ لیتیں ظاہر ہے کہ جب ہاتھ لگنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو نظر پڑنا تو اس سے بھی تھوڑا عمل ہے یاد رکھیں نماز کا نہ ٹوٹنا اور بات ہے ، دیکھئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں مسلمان کی نمز کتے،  گدھے، عورت اور دوسرے جانوروں کی وجہ سے نہیں ٹوٹتی (طحاوی) اب کتے سے سامنے گزرنے سے نماز  نہ ٹوٹنا اور ابات ہے اس سے یہ مسئلہ نکالنا کہ نامزی از خود کتے کو اگے باندھ کر بیٹاھے نماز پڑھے تو جائز ہے یہ اور بات ہے۔ نمازی کے سمانے سے عورت کا گزر جانا اور اس سے نمز نہ ٹوٹنا اور بات ہے اور از خود عورت کو سامنے بیٹھانا اور لٹانا اور نماز میں اس کو دیکھتے رہنا یہ اور بات ، بہر حال نماز نہ ٹوٹنے سے اس فعل کا اختیار اور ارادہ سے جائز سمجھنا بالکل غلط ہے اب دیکھئے قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کی حضورﷺ نے اجازت نہیں ددی مگر نماز پڑھتے ہوئے بیوی کے پاؤں  کو چھو دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔

No comments:

Post a Comment