Monday 9 September 2019

خطا و نسیان کا مسئلہ ( نماز میں بھول کر کلام کرلینا )

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے
 عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ قال ان اللہ تجاوز عن امتی الخطاء و النسیان وما استکرھوا علیہ ( رواہ ابن ماجہ و البہیقی ۔ مشکوۃ جلد 2 صفحہ 584
یعنی رسول اللہ ﷺ ہیں  کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری امت کی غلطی اور خطا سے اور بھول چوک سے اور جو ان سے جبرا ، کراہا کرایا جائے اس سے درگذر فرماکر معاف فرما دیا ہے یہ حدیث ابن ماجہ اور بہیقی کی ہے اس کے الفاظ صاف ہیں کہ جو کام بھولے چوکے ہوجائے وہ معاف ہے اس پر پکڑ نہیں ۔ اسی اصول کے مطابق نماز میں جو غلطی سے یا بھولے سے بول چال کرلے اس کی نماز باطل نہیں ہوتی ۔چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے نماز میں کلام کیا لیکن رسول اللہ ﷺ سے یہ منقول نہیں کہ آپ نے انہیں اس نماز کے دہرانے کا حکم دیا ہو ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار رکعت والی نماز میں رسول اللہ ﷺ نے دو پڑھا کر سلام پھیر دیا ۔ پھر جب آپ کو اطلاع دی گئی اور یقین ہوا تو جو دو رکعت چھوٹ گئی تھیں انہیں ادا کرلیا اور دو سجدے سہو کے کر لیے یہ حدیث بخاری ، مسلم مین حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہی روایت مسلم شریف میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ پس یہ حدیثیں صاف ہیں اس بارے میں کہ نماز میں بھول کر یا بے علمی سے اگر کوئی کلام کرلے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی ۔
اعتراض
پھر فقہ حنفی پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب سے اعلی اور سب سے معتبر کتاب ہدایہ کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ الخ ص 114 میں ومن تکلم فی صلوتہ عامدا او ساھیا بطلت صلوتہ

عورت کی باری باندھنے کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے:
عن ابی قلابہ عن انس قال من السنۃ  اذا  تزوج  الرجل الکبر علی الثیب اقام عندھا سبعا و قسم و اذا  تزوج  الثیب اقام عندھا  ثلثا  ثم قسم قال ابو قلابۃ ولو شئت لقلت ان انسا رفعہ النبی ( متفق علیہ مشکوۃ جلد دوم صفحہ 289)
یعنی رسول اللہ کی سنت یہی ہے کہ بیوی والا جب اپنا اور نکاح کرے تو اگر کسی کنواری سے کیا ہے تو سات راتیں اس کے پاس گزارنے کے بعد باریاں تقسیم کرے ۔اور اگر کسی رانڈ سے کیا ہے تو تین راتیں اس کے پاس گزار کر پھر باریاں تقسیم کرے ۔ یہ حدیث بخاری و  مسلم کی ہے اور صاف لفظوں میں ہے کسی تشریح کی ضرورت نہیں ۔
اعتراض
پھر فقہ حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب سے اعلیٰ اور سب سے معتبر کتاب ہدایہ کتاب النکاح باب القسم ص 329 میں والقدیمۃ و الجدیدۃ سواء ۔
یعنی پرانی بیوی اور نئی کی ہوئی باریوں میں برابر کی حقدار ہیں یعنی اگر پرانی پر کی ہے اور وہ کنواری ہے تو سات راتیں اس کے پاس گزار کر پھر باریاں باندھے اور اگر رانڈ ہے تو تین راتوں کا حق اسی کا ہے پھر باریاں باندھے ایسا نہ کرے بلکہ شب اول سے ہی باریاں مقرر کردے ۔ حنفی بھائیوں،  حدیث بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔ کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ چھوڑ دیں گے نہ مانیں گے ؟؟ اور جو فقہ میں ہے اسے تھام لیں گے ؟؟ اور اسی پر ایمان لائیں گے ؟؟
شمع محمدی ص 41 ظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین حصہ اول ص 182 فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص 59