Wednesday 12 August 2020

کتاب: امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث

 کتاب: امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث

مصنف: عمار خان ناصر

اردو میں اپنی طرز کی پہلی کتاب جس میں امام ابوبکر ابن ابی شیبہ علیہ رحمہ کے ایک سو پچیس اعتراضات کے مکمل جوابات دئے گئے ہیں۔

Saturday 30 May 2020

باپ کے ہبّہ کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی لکھتے ہیں:
اعتراض:
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوے لکھتے ہیں۔ لیکن حنفی مذہب اسے بھی نہیں مانتا وہ کہتا ہے۔ حنفی مذہب کی معتبر اور اعلیٰ کتاب کے اسی صفحہ میں ہے،  بخلافہبۃ الوالد لولدہ
یعنی اجنبی شخص کو ہبہ کی ہوئی چیز تو واپس  لے سکتا ہے لیکن باپ جو اپنے لڑکے کو کوئی چیز ہبہ کر دے اسے واپس نہیں لے سکتا۔ آپ نے خیال فرمایا؟ حدیث مین تھا کہ غیر کو دی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتا تو فقہ میں ہے کہ لے سکتا ہے۔ حدیث مین تھا کہ باپ جو چیز اپنے بیٹے کو ہبہ کر ے وہ واپس لے سکتا ہے تو فقہ میں ہے کہ نہیں لے سکتا؟ اب حنفی بھائیو! بتلاؤ تم کیا کہتے ہو؟ آیا ہم مسلمان حدیث پر عمل کرکے یہ مانیں کہ باپ بیٹے سے اپنا ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ یا حنفی مذہب پر عمل کر کے یہ مانیں کہ نہین لے سکتا؟ بتاؤ حدیچ کو لیں؟ یا فقہ کو؟ رسول اللہﷺ کی مانیں؟ یا کسی امتی کی؟ اتباع سنت کریں؟ یا تقلید شخصی؟ ۔ (شمع محمدی ص 48، ظفر المبین حصہ اول ص 207)

ہبہ کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے۔
عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ لایرجع احد فی ھبۃ الاالوالد من ولدہ (رواہ النسائی وابن ماجہ۔ مشکوٰۃ کتاب البیوع ص 261 جلد اول)۔
یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کوئی شخص کسی کو کوئی چیز ہبہ کر دے بخش دے پھر وہ اسے واپس نہیں لے سکتا۔ سوائے باپ کے کہ وہ اپنی اولاد سے اپنی ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے۔ اسی کے قریب قریب روایت ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذیؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں فرمان  رسولﷺ ہے کہ اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ یہ حدیث صاف ہے کہ ہبہ کی ہوئی چیز کوئی واپس نہیں لے سکتا۔
اعتراض:
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانا وہ کہتا ہے کہ واپس لے سکتا ہے۔ چنانچہ حنفی مذہب فقہ کی اعلیٰ اور بہترین کتاب ہدایہ کتاب الہبہ ص 273 میں ہے اذاوھب ھبۃ لا جنبی فلہ الرجوع فیھا
یعنی جو شخص کسی غیر شخص کو کوئی چیز ہبہ کرے تو اسے حق ہے کہ اسے واپس لے لے پس حدیث میں تو صاف ہے کہ اپنی ہبہ کی کوئی چیز واپس نہیں لے سکتا۔ اور حنفی مذہب میں صاف ہے کہ اپنی ہبہ کی ہوئی چیز والس لے سکتا ہے۔ حنفی بھائیو! بتلاؤ اب ایمان کس پر ہے؟ اور کفر کس سے ہے؟ کیا حدیث کو مان کر فقہ کو چھوڑو گے ؟ یا فقہ کو مان کر حدیث کو چھوڑو گے؟ (شمع محمدی ص 48، ظفرالمبین ص 207، فتھ المبین علی رد مذاہب المقلدین ص 133، سبیل الرسول ص 278، اختلاف امت کا المیہ ص 59

رضاعت کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے۔
عن ام الفضل قالت ان النبیﷺ قال لا تحرم الرضاعۃ والرضاعتان۔ (رواہ مسلم۔ مشکوٰۃ ج دوم ص 273)
یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک یا دو دفعہ منہ لگا کر کسی عورت کا دودھ کوئی بچہ پی لے تو اسے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ صحیح مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ حضورﷺ کی پوری زندگی تک رضاعت یعنی دودھ پلائی کی حرمت کا حکم رہا کہ پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر جب کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پئے تو حرمت رضاعت ثابت ہو گی بلکہ یہ بھی مروی ہے کہ پہلے قرآن مین دس دفعہ کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ مرتبہ کا پیٹ بھر کر پی لینے کا حکم حضورﷺ کی پوری حیات تک باقی رہا۔ پس یہ حدیث صحیح اور صریح ہے کہ دودھ پلائی کی کمی زیادتی میں حکم کا فرق ہے۔
اعتراض:
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا۔ اس میں ایک دو دفعہ دودھ پی لینا بھی حرمت ثابت کر دیتا ہے۔ چنانچہ حنفی مذہب کی سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ معتبر کتاب ہدایہ کتاب الرضاع ص 230 میں ہے قلیل الرضاع وکثیرہ سواء اذا حصل فی مدۃ الرجاع یتعلق بہ التحریم ۔
یعنی تھوڑی رضاعت اور زیادہ برابر ہے دودھ پینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ حنفی بھائیو! کہا کیا اب تم وہ کہو گے اور مانو گے؟ جو حدیث میں ہے کہ اگر کسی دودھ پیتے بچے نے کسی عورت کی چھاتی سے دو ایک دفعہ دودھ پی لیا تو اس کی ماں کی طرح اس پر حرام نہیں ہوئی جب تک کہ کم سے کم پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر اس کا دودھ نہ پی لے۔ حنفی مذہب کی فقہ کے اس مسئلہ کو مانو گے؟ کہ اگر ایک دو دفعہ بھی پی لیا تو بھی حرمت ثابت ہو گئی؟ کہو کس پر ایمان رکھو گے؟ اور کس پر ایمان نہ رکھو گے؟ (شمع محمدی ص 47، ظفر المبین حصہ اول ص 189، فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص 85 و ص 133

Friday 29 May 2020

گھوڑے کی حلت کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے
عن جابر ان رسول ﷺ نهی یوم خیبر عن لحوم الحمر الاھلیۃ  واذن فی لحوم الخيل ( متفق علیہ مشکوۃ صفحہ 359 جلد دوم)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن پالتو گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی ۔ ایک صحیح حدیث  میں ہے حضرت اسماء بنت ابی ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے ہم نے گھوڑے کا گوشت کھایا ۔ یہ حدیث علاوہ اعلیٰ درجہ کی صحیح ہونے کے کھلی دلیل صاف لفظوں میں ہے کہ گھوڑا حلال ہے ۔
اعتراض
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
 لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب اعلیٰ اور سب سے زیادہ معتبر کتاب ہدایہ کتاب الذبائح صفحہ 425 میں ہے و یکرہ لحم الفرس عند ابی حنیفہ ؒ  ۔ یعنی امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت مکروہ ہے ۔ حنفی بھائیوں ۔ایک طرف تو آپ کے سامنے حدیث رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور دوسری طرف آپ کے سامنے آپ کی فقہ کا مسئلہ ہے اب کیا آپ کا جی حدیث کے چھوڑنے اور فقہ کے لینے کو چاہتا ہے ؟؟؟ کیا حدیث سے انکار کرنے اور فقہ پر ایمان لانے کو آپ کا دل پسند کرتا ہے ؟؟ (شمع محمدی ص45 ظفر المبین حصہ اول ص 219 ، فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص56 و ص 133 )۔

جانور کےپیٹ کے بچے کے ذبیحہ کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے
عن جابر ان النبی ﷺ قال ذکوۃ الجنین ذکوۃ امہ ( رواہ ابو داؤد والدارمی وراوہ الترمذی عن ابی سعید مشکوۃ صفحہ350 جلد ب)
دارقطنی ۔ ابن ماجہ اور مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں پیٹ کے اندر کے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے یعنی کسی جانور کو ذبح کیا اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلا تو وہ بھی اس کی ماں کے ذبیحہ میں ہی داخل ہے اور اس کا کھانا حلال ہے یہ حدیث صاف ہے کہ جس جانور کو ذبح کریں اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے اس کا کھانا حلال ہے وہ ذبح شدہ ہے ابوداؤد میں یہ بھی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا  کہ ہم کسی مادہ کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلتا ہےتو کیا اسے کھالیں یا پھینک دیں ؟؟آپ نے فرمایا کھالو اس کی ماں کا ذبیحہ اس کا ذبیحہ ہے ۔
اعتراض
پھر حنفی مذہب  پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب اعلیٰ اور سب سے زیادہ  معتبر کتاب ہدایہ کتاب الذبائح صفحہ 424 میں ہے ومن نحر ناقۃ او ذبح بقرۃ فوجد فی بطنھا جنینا میتا لم یؤکل اشعر اولم یشعر
یعنی جس نے اونٹنی کو گائے کو ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلا تو اسے نہ کھایا جائے خواہ ذبح کرنیوالے کو اس کا علم ہو یا نہ ہو ۔ حنفی بھائیوں ،حدیث بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ اسے  نہ مانیں گے ؟؟چھوڑ دیں گے ؟؟ اور جو فقہ میں ہے اسے لے لیں گے ؟؟ اور اسی پر ایمان رکھیں گے ؟؟
(شمع محمدی ص44 ظفر المبین حصہ اول ص 218 ، فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص56 و ص 133 )