Saturday 30 May 2020

رضاعت کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے۔
عن ام الفضل قالت ان النبیﷺ قال لا تحرم الرضاعۃ والرضاعتان۔ (رواہ مسلم۔ مشکوٰۃ ج دوم ص 273)
یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک یا دو دفعہ منہ لگا کر کسی عورت کا دودھ کوئی بچہ پی لے تو اسے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ صحیح مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ حضورﷺ کی پوری زندگی تک رضاعت یعنی دودھ پلائی کی حرمت کا حکم رہا کہ پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر جب کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پئے تو حرمت رضاعت ثابت ہو گی بلکہ یہ بھی مروی ہے کہ پہلے قرآن مین دس دفعہ کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ مرتبہ کا پیٹ بھر کر پی لینے کا حکم حضورﷺ کی پوری حیات تک باقی رہا۔ پس یہ حدیث صحیح اور صریح ہے کہ دودھ پلائی کی کمی زیادتی میں حکم کا فرق ہے۔
اعتراض:
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا۔ اس میں ایک دو دفعہ دودھ پی لینا بھی حرمت ثابت کر دیتا ہے۔ چنانچہ حنفی مذہب کی سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ معتبر کتاب ہدایہ کتاب الرضاع ص 230 میں ہے قلیل الرضاع وکثیرہ سواء اذا حصل فی مدۃ الرجاع یتعلق بہ التحریم ۔
یعنی تھوڑی رضاعت اور زیادہ برابر ہے دودھ پینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ حنفی بھائیو! کہا کیا اب تم وہ کہو گے اور مانو گے؟ جو حدیث میں ہے کہ اگر کسی دودھ پیتے بچے نے کسی عورت کی چھاتی سے دو ایک دفعہ دودھ پی لیا تو اس کی ماں کی طرح اس پر حرام نہیں ہوئی جب تک کہ کم سے کم پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر اس کا دودھ نہ پی لے۔ حنفی مذہب کی فقہ کے اس مسئلہ کو مانو گے؟ کہ اگر ایک دو دفعہ بھی پی لیا تو بھی حرمت ثابت ہو گئی؟ کہو کس پر ایمان رکھو گے؟ اور کس پر ایمان نہ رکھو گے؟ (شمع محمدی ص 47، ظفر المبین حصہ اول ص 189، فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص 85 و ص 133
جواب:
امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کی تائید قرآن و حدیث سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(1) وامھتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ (الآیۃ سورۃ النساء پارہ نمبر 4 آیت 23)
اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف دودھ پلانے کی وجہ سے حرام کیا ہے۔ اور یہ حکم عام ہے قلیل ہو کثیر سب کو شامل ہے۔
(2)حضرت عائشہؓ زوجہ نبی کریمﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے کہ میں نے ایک شخص کی آواز سنی جو حفصہؓ کے گھر میں جانے کی اجازت مانگ رہا تھا تو مین نے کہا۔ یا رسولا للہﷺ کوئی آدمی آپ کے گھر جانا چاہتا ہے۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہؓ کا رضاعی چچا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا اگر فلاں شخس زندہ ہوتا جو میرا دودھ کے رشتہ کا چچا تھا تو کیا میں اس سے پردہ نہ کرتی آپﷺ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری کتاب النکاح، پارہ 21)
(3) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں جو رشتے نسب سے حرام ہیں دودھ پینے سے بھی حرام ہیں۔ (بخاری)
(4) امام بخاریؒ نے بخاری کتاب النکاح میں ایک باب باندھا ہے وامھاتکم التی ارضعنکم ویحرم من الرضاعۃ مایحرم من النسب آنحضرتﷺ نے فرمایا جو عورتیں نسب کی وجہ سے حرام ہین وہی رضاعت کے سبب بھی حرام ہیں۔ (دراصل یہ حدیث کا ٹکڑا ہے امام بخاریؒ نے باب میں ذکر کیا ہے)۔
(5) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا  یحرم من الرضاع مایحرم من النسب ۔ دودھ پلانے سے اتنے رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ (نسائی مترجم جلد 2 ص 393)
(6) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے حضرت حمزہؓ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ تو دودھ کے ناطے سے میری بھتیجی ہیں۔ خدا کی قسم دودھ ویسے ہی حرام کرتا ہے جیسے کہ نشب حرام کرتا ہے۔ (نسائی ج 2 ص 394) ان چھ روایاتسے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے سے ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ان روایات مین قلیل و کثیر کا ذکر نہین ہے۔ صرف دودھ پینے کا ذکر ہے۔
(7) امام بخاریؒ نے بخاری میں باب باندھا ہے۔ وما یحرم من قلیل الرضاع وکثیرۃ عورت کا دودھ پینے سے رضاعت چابت ہو جاتی ہے خواہ تھورا ہو یا زیادہ (بخاری کتاب النکاح باب 51)
(8) حضرت قتادہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رضاعت کے متعلق حضرت ابراہیم بن یزید نخعی کی طرف استفتاء بھیجا۔ آپ نے جواب  میں لکھا کہ مجھ سے شریح اور حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ نے بیان کیا کہ دودھ پینے سے نکاح حرام ہو جاتا ہے اگرچہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ الحدیث۔ (نسائی ج 2 ص 67)
(9) امام محمد روایت کرتے ہیں۔ ابراہیم بن عتبہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سعید بن المسیب سے رضاعت کے متعلق سوال کیا تو ن انہوں نے کہا دو سال کے اندر بچہ خواہ ایک چسکی بھی (دودھ) پئے اس سے حرمت رجاعت ثابت ہو جائے گی۔ اور دو سال کے بعد ہو تو وہ گویا کھانا ہے جو اس نے کھا لیا ہے۔ (موطا امام محمدؒ ص 274)
(10) ابراہیم نخعیؒ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ فرماتے تھے رضاعت خواہ قلیل ہو یا کثیر ہو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ (مجمع الزوائد ج 4 ص 261)
(11) عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا کہ حضرت ابن زبیر یہ کہتے ہیں کہ ایک چسکی یا دو چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا اللہ اور اس کا رسولﷺ کا فیصلہ ابن الزبیر کے فیصلے سے بہتر ہے۔ حرمت رضاعت میں قلیل اور کثیر برابر ہے۔ (مجمع الزوائد ج 4 ص 261)
(12) عطاء کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کو جب یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابن زبیر مسئلہ رضاعت میں حضرت عائشہؓ کی پیروی کرتے ہیں اور وہ یہ کہتی ہیں کہ سات چسکیوں سے کم میں رضاعت نہیں ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ عائشہؓ سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ای چسکی یا دو چسکیوں کی قیدنہیں لگائی بلکہ مطلق فرمایا واخواتکم من الرضاعۃ ولم یقل دفعۃ ولا دفعتین۔ ( مصنف عبدالرزاق ج 7 ص 467 و ص 468)
(13) شعبہؒ بیان کرتے ہیں کہ حکم اور حماد کہتے تھے کہ ایک چسکی سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 287)
(14)طاؤسؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباسؓ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا ایک مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 /4 ص 287 و ؐصنف عبدالرزاق ج 7 ص 467)
(15) طاؤسؒ کہتے ہیں کہ پہلے نبی اکرمﷺ کی ازواج چند چسکیوں کی بناء پر حرمت رضاعت کی قائل تھیں پھر اس عمل کو چھوڑ دیا گیا اور قلیل اور کثیر چسکیوں سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ج 7 ص 467)
(16) طاؤسؒ کہتے ہیں میں نے کہا لوگ پہلے کہتے تھے کہ سات چسکیوں سے ھرمت ثابت ہوتی ہے پھر پانچ چسکیوں سے کہنے لگے پھر نیا حکم نازل ہوا۔ اب ایک چسکی پینے سے بھی حرمت رضاعت چابت ہو جاتی ہے۔ (مسنف عبدالرزاق ج 7 ص 467)
ان احادیث و آثار میں اس بات کی واضح تصریح موجود ہےکہ پانچ چسکیوں کی قید ابتداء میں تھی اور بعد میں منسوخ ہو گئی تھی۔
قرآن مجید احادیث صحیحہ آثار صحابہ اور اقوال تابعین کی تلویحات اور تصریحات سے واضح ہو گیا کہ حرمت رضاعت میں پانچ چسکیوں کی قید معتبر نہیں ہے۔ اور مطلقاً دودھ پینے سے خواہ  وہ ایک چسکی ہی کیوں نہ ہو حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے اور اس سے امام ابو حنیفہؒ کی فکر کی گہرائی اور گیرائی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے حرمت رضاعت میں اس چیز کو معیار بنایا ہے جو قرآن اور حدیث کے عموم اور اطلاق اور صحابہؓ اور تابعینؒ کے ارشادات کا عین اتباع ہے۔ رہیں وہ تین روایات جو صاحب شمع محمدی نے نقل کی ہیں ان کے جوابات کی اب ضرورت تو نہین رہتی کیونکہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہو چکا ہے۔ مگر یہاں ہم مختصر طور پر ان کے جوابات عرض کرتے ہیں۔ یہ تینوں روایتیں منسوخ ہیں۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
(1) اخبرنی طاؤس عن ابیہ قال کان لازواج النبی وضعات معلومات قال ثم ترک ذلک بعد۔ فکان قلیلۃ وکثیرۃ یحرم۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 7 ص 467
طاؤس کہتے ہیں کہ پہلے نبی پاکﷺ کی ازواج چند چسکیوں کی بناء پر رضاعت کی قائل تھیں۔ پھر اس پر عمل چھوڑ دیا گیا اور قلیل اور کثیر چسکیوں سے حرمت رضاعت ثاہت ہو جاتی ہے۔
(2) عن طاؤس قال ولت انہم یزعمون انہ لا یحرم من الرضاع دون سبع رضعات ثم صار ذالک الی خمس فقال طاؤس قد کان ذالک فحدث بعد ذالک امر جاء التحریم المرۃ الواحدۃ تحرم۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ک 7 ص 467)
طاؤس کہتے ہیں میں نے کہا لوگ پہلے کہتے تھے کہ سات چسکیوں سے حرمت ہوتی ہے پھر پانچ شسکیون سے کہنے لگے پھر نیا حکم نازل ہوا اب ایک چسکی پینے سے بھی حرمت رضاعت ہو جاتی ہے۔
ان احادیث میں اس بات کی واجح تصریح ہے کہ پانچ چسکیوں کی قید ابتداء مین تھی بعد مین منسوخ ہو گئی تھی۔
(3) اگر آنحضرتﷺ کی وفات تک قرآن کریم میں خمس کے لفظ ہوتے تو یہ ضرور منقول ہوتے قرآن کی متواتر قرات میں سے کسی میں تو ضرور ہوتے کسی بھی متواتر قرات میں ان الفاظ کا نہ ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ آنحضرتﷺ کی وفات سے پہلے یہ الفاظ منسوک ہو چکے تھے۔ وگرنہ یہ لازم آئے گا کہ قرآن کریم کے ایسے الفاظ جو آنحضرتﷺ کی وفات
36)
 تک موجود تھے جو منسوخ نہ ہوئے تھے وہ بعد میں کیسے منسوخ ہو گئے اور یہ لازم محال اور آیت انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون۔ کے خلاف ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلے عشر رضعات سے حرمت کا حکم تھا پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور خمس رضاعت حرمت کا حکم نازل ہوا۔ لیکن حضرت عائشہؓ کو اس آخری نسخ کا علم نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے علم کے مطابق یہ فرما دیا۔

No comments:

Post a Comment