Saturday 30 May 2020

باپ کے ہبّہ کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی لکھتے ہیں:
اعتراض:
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوے لکھتے ہیں۔ لیکن حنفی مذہب اسے بھی نہیں مانتا وہ کہتا ہے۔ حنفی مذہب کی معتبر اور اعلیٰ کتاب کے اسی صفحہ میں ہے،  بخلافہبۃ الوالد لولدہ
یعنی اجنبی شخص کو ہبہ کی ہوئی چیز تو واپس  لے سکتا ہے لیکن باپ جو اپنے لڑکے کو کوئی چیز ہبہ کر دے اسے واپس نہیں لے سکتا۔ آپ نے خیال فرمایا؟ حدیث مین تھا کہ غیر کو دی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتا تو فقہ میں ہے کہ لے سکتا ہے۔ حدیث مین تھا کہ باپ جو چیز اپنے بیٹے کو ہبہ کر ے وہ واپس لے سکتا ہے تو فقہ میں ہے کہ نہیں لے سکتا؟ اب حنفی بھائیو! بتلاؤ تم کیا کہتے ہو؟ آیا ہم مسلمان حدیث پر عمل کرکے یہ مانیں کہ باپ بیٹے سے اپنا ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ یا حنفی مذہب پر عمل کر کے یہ مانیں کہ نہین لے سکتا؟ بتاؤ حدیچ کو لیں؟ یا فقہ کو؟ رسول اللہﷺ کی مانیں؟ یا کسی امتی کی؟ اتباع سنت کریں؟ یا تقلید شخصی؟ ۔ (شمع محمدی ص 48، ظفر المبین حصہ اول ص 207)

جواب:
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے حدیث ملاحظہ فرمائیں۔
قال رسول اللہ اذا کانت الھبۃ لذی رحم محمر لم یرجع فیھا
رسول اللہﷺ نے فرمایا جب کسی شخص ذی رحم محرم کو کوئی چیز ہبہ کردی جائے تو واپس نہ لی جائے ۔ (سنن الکبریٰ بیہقی، دارقطنی، مستدرک حاکم)
یہ حدیث صریح ہے کہ ذی رحم محرم سے ہبہ نہ لوٹایا جائے۔ جس حدیث کا حوالی صاحب شمع محمدی نے دیا ہے اسکا مفہوم یہ ہے۔ کہ باپ کو لے لینا اور خرچ کر لینا جائز ہے جیسے اور اموال اولاد مین باپ کوتصرف کرنا جائز ہے یہ معنی نہیں کہ ہبہ کو رجوع اور فسخ جائز ہے۔ ورنہ یہ معنی اس حدیث کے مخالف ہوں گے جو ہم نے نقل کی ہے۔ پس حتی الامکان تطبیق اولیٰ ہے۔
حضرات آپ نے دیکھ لیا کہ مسئلہ ہبہ میں غیر محرم کا لفظ موجود ہے اور یہاں پر ذی رحم محرم کا لفظ صراحت پایا جاتا ہے۔ اور فقہ حنفی کا مسئلہ دونوں جگہ احادیث سے ثابت ہے۔ صاحب شمع محمدی نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے۔

No comments:

Post a Comment