Thursday 6 February 2014

نماز ظہر و عصر کے اوقات

واخروقتھا عند ابی حنیفۃ اذا صارظل کل شئی مثلیہ واول وقت العصر اذا خرج وقت الظھر۔(ہدایہ جلد اول باب المواقیت)
”امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک آخری وقت ظہر کا اور اول وقت عصر کا وہ ہے جب ہر چیز کا سایہ اس سے دگنا ہو جائے“۔
اس مسئلہ میں ائمہ اربعہ کا اختلاف:۔
ظہر کا اول وقت بالاتفاق زوال سے شروع ہوتا ہے اور استواء شمس کے وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ فَیِ زوال (اصلی شایہ ) کہلاتا ہے اس کے پہچانننے کا طریقہ یہ ہےکہ ہموارزمین میں کوئی سیدھی لکڑی یا کیل گاڑھ دی جائے زوال سے پہلے اس کا جو سایہ ہو گا وہ تدریجا گھٹتا رہے گا پھر یا تو بالکل ختم ہو جاے گا یا کچھ باقی رہے گا۔(خط استواء سے قریب بعد کی وجہ سے فی زوال مختلف ہوتا ہے۔) اور گھٹنا بند  ہو جائے گا یہی باقی ماندہ سایہ فی زوال (اصلی سایہ ) ہے پھر وہ دوسری جانب بڑھنا شروع ہو گا جوں ہی بڑھنا شروع ہو سمجھ لینا چاہئے کہ زوال شمس ہو گیا اور ظہر کا وقت شروع  ہو گیا ۔ اور ظہر کا وقت کب تک باقی رہتا ہے عصر کا وقت کب تک سے شروع ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے ، ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اور امام احمدؒ اور صاحبین یعنی امام یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے، جب ہر چیز کا سایہ فی زوال کو منہا کرنے کے بعد اس چیز کے بقدر ہو جائے، اصطلاح میں اس کو ایک مثل(مانند) کہتے ہیں اور اس کے بعد فوراً عصر کا وقت شروع ہو تا ہے دونوں وقتوں کے درمیان مشہور قول  کے مطابق نہ تو کوئی حد فاصل ہے نہ وقے مشترک۔

۱۔ ظاہر روایت میں ظہر کا وقت دو مثل پر ختم ہوتا ہے، اور اس کے بعد فوراً عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، یہی مفتٰی بہ قول ہے، علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع ج۱ ص۱۲۲ لکھا ہے کہ یہ قول ظاہر روایت میں صراحتہً مذکور نہیں ہے، امام محمدؒ نے صرف یہ لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عصر کا وقت دو مثل کے بعد (یعنی تیسرے مثل سے) شروع ہوتا ہے، ظہر کا وقت کب ختم ہوتا ہے اس کی تصریح امام محمد ؒ نے نہیں کی ہے۔
۲۔امام اعظم ؒ کا دوسسرا قول وہی ہے جو ائمہ  ثلاثہ اور صاحبین کا ہے، امام محاویؒ نے اس کو اختیار کیا ہے اور صاحب درمختار نے لکھا ہے کہ آج کل لوگوں کا عمل اسی پت ہے اور اس پر فتویٰ دیا جاتا ہے اور سید احمد رحلان شافعیؒ نے جزانۃ المفتین اور فتاویٰ ظہیریہ سے امام صاحب کا اس قول کی طرف رجوع نقل کیا ہے۔فض الباری ص۹۵ج۲۔ مگر ہماری کتابوں میں یہ رجوع ذکر نہیں کیا گیا اس قول کو حسن بن زیاد لؤلؤی کی روایت قرار دیا گیا ہے اور سرخسی نے مبسوط میں اس کو بروایت امام محمدؒ ذکر کیا ہے، اور صاحب درمختار نے جو اس قول کو مفتیٰ بہ کہا ہے اس کو علامہ شامی نے رد کیا ہے۔
۳۔ امام اعظمؒ سے تیسری روایت یہ  ہے کہ مثل ثانی مہمل وقت ہے یعنی ظہر  کا وقت ایک مثل پر ختم ہو جاتا ہے اور عصر کا وقت دو مثل کے بعد شروع ہوتا  ہے اور  دوسرا مثل نہ ظہر کا وقت ہے نہ عصر کا ، یہ  اسد بن عمرو کی روایت ہے امام اعظم ؒ سے۔
۴۔ اور چوتھا قول عمدۃ القاری شرح بخاری میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل سے کچھ پہلے ختم ہو جاتا ہے، اور عصر کا وقت دومثل کے بعد شروع ہو جاتا ہے ، امام کرخی ؒ نے اس قول کی تصحیح ک ہے۔(فیض الباری ص۹۵ج۲)
نماز زوال ہوتے ہی پڑھائی تھی اور عصر کی نماز ایک مثل پر پڑھائی تھی اور دوسرے دن ظہر کی نماز ایک مثل پر پڑھائی یعنی ٹھیک اسی وقت جس وقت پہلے دن عصر کی نماز پڑھائی تھی، (لوقت العصت بالامس) اور عصر کی نماز دو مثل پر پڑھائی تھی۔
(یہ جو روایت متعد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے ، ابو داؤد ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ سے جوروایت مروی ہے اس میں لوقت العصت بالامس کا لفظ ہے، یہ روایت ترمذی و نسائی میں ھضرت جابرؓ سے بھی مروی ہے، اور ابن راہو یہ نے اپنی مسند میں حضڑت ابو مسعود ؓ سے بھی روایت کی ہے نیز یہ روایت صحیحین میں بھی ہے مگر مجمل ہے یعنی اوقات صلٰوۃ کی اس میں تفصیل نہیں ہے، نیز اس روایت کو  بزار رحمہ اللہ نے بھی اپنی مسند میں حضرت ابو ہریرہؓ سے اور عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں  حضڑت عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے۔کمافی نصاب الرایۃج۱ص۲۲۱۔۲۳)
روایت کا مفاد :۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثل تک ظہر کا وقت ہوتا ہے در دونں وقتوں کے درمیان نہ تو کوئی مہمل وقت ہے نہ مشترک ، اس روایت کو ائمہ ثلثہ اور صاحبین نے لیا ہے، البتہ امام مالک علیہ الرحمۃ مثل اول کے آخر میں مقیم کے لئے چار رکعت کے بقدر، اور مسافر کے لیئے دو رکعت کے بقدر مشترک وقت مانتے ہیں، یعنی اس میں ظہر کی نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے اور عصر کی نماز بھی، کیونکہ حضرت جبرزئیلؑ نے پہلے دن جس وقت عصر کی نماز پڑھائی ٹھیک اسی وقت میں دوسرے دن ظہر کی نماز پڑھائی تھی۔ علامہ دردیر کی شرح صغیر میں ہے:
واشترکت الظھر والعصر فی اخر القامۃ بقدر اربع رکعات فیکون اخر وقت الظھر و اول وقت العصر۔
ظہر اور عصر شریک  ہیں مثل  اول کے آخر میں چار رکعت کے بقدر (شرح صادی میں ہے کہ یہ حالت حضر میں ہے اور حالت سفر میں دو رکعت کے بقدر ہے) لہذا مثل اول کا آخر ی وقت اور عصر کا اول (ابتدائی وقت) ہے۔  (بلغۃ السالک ج۱ ص۸۳)
مگر ابن حبیب مالکی   اشتراک کے قائل نہیں اور ابن العربی مالکی تو فرماتے ہیں کہ:۔
ناللہ مابینھا اشتراک ولقد زلت فی اقدام العلماء(حوالہ سابقیہ)
”خدا کی قسم دونوں وقتوں  کے درمیان مشترک وقت نہیں ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں رعلماء (مالکیہ)  کے پیر پھسل گئے ہیں“
اور جمہور لوقت العصر بالامس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ بات راوی نے نقارب زمانین کی وجہ سے کہی ہے ورنہ حقیقت میں پہلے دن جس وقت عصر کی نماز شروع کی تھی دوسرے دن اس سے ذراپہلے ظہر کی نماز پوری کر دی تھی، دونوں دن دونوں نمازیں ایک ہی وقت میں نہیں پڑھی تھیں ۔ کیونکہ آیت کریمہ ۔ ان  لصلوۃ کانت علی المؤمنین کتبا۔۔۔(یعنی نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے)  سے یہ بات واضح ہےکہ ہر ماز کا وقت الگ الگ ہے اشتراک نہیں ہے۔
ایک روایت:۔
حضرت عمرؓ کا گشتی فرمان ہے جو آپ نے اپنے گورنروں کے نام جاری کیا تھا اس میں اپ نے لکھا تھا کہ ظہر کی نماز پڑھو جب سایہ ایک ہاتھ ہو جائے یہاں تک کہ وہ سایہ ایک مثل  ہو جائے اور عصر کی نماز پڑھو در آن حالیکہ سورج بلند ، چمکدار اور صاف ہو ، اور عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے سوار دو یا تین فرسخ کا سفر کر سکے۔(موطا امام مالک ص۱۳)
روایت کا مفاد :۔
یہ روایت بھی اس باب میں صریح نہیں ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل پر ختم ہو جاتا ہےم بظاہر روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے  کہ یہ مستحب  اوقات کا بیان ہے کیونکہ حضرت عمرؓ نے ظہر کی نماز پڑھنے کا حکم اس وقت دیا ہے جب کہ سایہ ایک ہاتھ ہو جائے ، حالانکہ ظہر کا وقت زوال سے شروع ہو جاتا ہے۔ نیز عصر جس وقت میں پہڑھنے کا حکم دیا ہے وہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں  کو مستحب اوقات کی تعلیم دی ہے، حقیقی اوقات نہیں بتائے۔
احناف کے دلائل:۔
پہلی حدیث:۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَا أُخْبِرُکَ صَلِّ الظُّهْرَ إِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَکَ وَالْعَصْرَ إِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَيْکَ
عبداللہ بن رافع جو آنحضرت ﷺ کی بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مولٰی ہیں انہوں نے ابو ہریرہؓ سے نماز کا وقت پوچھا کہا، ابو ہریرہ  ؓ نے میں  بتاؤ تجھ کو نماز پڑھ ظہر کی جب سایہ  تیرا تیرے برابر ہو جائے اور عصر کی جب سایہ تجھ سے دوگنا ہو ۔(موطا امام مالک مترجم وحید الزمان غیرمقلدص۲۰-۲۱)
دوسری حدیث:۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ تَعْجِيلًا لِلظُّهْرِ مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ أَشَدُّ تَعْجِيلًا لِلْعَصْرِ مِنْهُ
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ تو ظہر کی نماز تم سے جلدی پڑھتے تھے اور تم لوگ عصر کی نماز کو آنحضرتﷺ سے جلدی پڑھتے ہو۔(جامع ترمذی جلد اول حدیث۱۵۵)
۲۔ عن رافع بن خدیج ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یامرھم بتاخیر العصر (بیھقی ص۴۴۳  ج۱ وھامشبہ الجواھر النفی ص ۴۴۱ج۱)
حضرت رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ لوگوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ عصر کی نماز کو مؤخر کرکے پڑھیں۔
۳۔عن الارمش قال کان اصحاب عبداللہ بن  مسعود یمجلون الظھر و یو خرون العصر۔(مصنف عبدالرزاق ج۱ ص۵۴۰)
اعمشؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھی اور شاگرد ظہر کی نماز جلدی پڑھتے تھے اور عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے تھے۔
۴۔عن ابی ھریرۃ انہ کان یؤخر العصر حتی اقول قد اصفرت الشمس (مصنف ابن ابی شیبہ ص۳۲۷ج۱)
سوار بن شبیب ؒ کہتے ہیں حضرت ابو ہریرؓ عصر کو اتنا مؤخر کرکے پڑھتے تھے کہ میں یہ خیال کرتا تھا شاید سورج زرد ہو گیا ہے۔
۵۔ عن علی بن شیبان ؓ قال قلمنا علی رسو ل اللہ ﷺ المدینۃ فکان یؤخر العصر مادامت الشمس بیضاء نفیہ۔ (ابو داؤد ص۵۹ج۱ ابن ماجۃ ص۴۸)
علی بن شیبانؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ عصر کی نماز مؤخر کرکے پڑھتے تھے جب تک سورج سفیف اور صاف ہوتا ہے۔(زرد ہونے سے پہلے)
۶۔ عن ابراھیم قال کان من قبلکم اشد تعجیلا للظھر واشد تاخیر للعصر منکم (مصنف عبدالرزاق ص۵۴۰ج۱)
حضڑت ابرہیم نخفیؒ کہتے ہیں تم سے پہلے لوگ ظہر کی نماز تمہاری بہ نسبت جلدی پڑھتے اور عصر کی نماز  تم سے زیادہ مؤخر کرتے تھے۔

5 comments:

  1. الحمدلله آپ کی خدمت قابل تعریف ہے
    مگر ٹائپنگ کی بے شمار غلطیاں ہیں براہ مہربانی اس کو درست فرمائیں تا کہ غیروں کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے
    شکریہ

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. بہت سی اغلاط ہیں۔ کتابت درست کروالیں۔ شکریہ

    ReplyDelete
  4. لوگوں کو آپ آخر کب تک بے وقوف بناتے رہیں گے ان شاءاللہ اب آپ کا فریبی دور بہت جلدی ختم ہو نے والا ہے 😂😂😂😂😂

    ReplyDelete
    Replies
    1. تابعین کے دور سے جو مسالک آج 14 ویں صدی عیسوی تک چلے آ رہے ہیں کوئی نئے نئے اٹھنے والے فتنے اور فرقے ان کا بال بھی بیکا نہیں کر پائے آج فتنوں کے دور کے عروج کے زمانے میں اٹھنے والا فرقہ نام نہاد کس کھیت کی مولی ہے۔۔۔۔۔ والحمدللہ

      Delete