واخروقتھا عند ابی حنیفۃ اذا صارظل کل شئی مثلیہ واول وقت العصر اذا خرج وقت
الظھر۔(ہدایہ جلد اول باب المواقیت)
”امام
ابو حنیفہؒ کے نزدیک آخری وقت ظہر کا اور اول وقت عصر کا وہ ہے جب ہر چیز کا سایہ
اس سے دگنا ہو جائے“۔
اس
مسئلہ میں ائمہ اربعہ کا اختلاف:۔
ظہر
کا اول وقت بالاتفاق زوال سے شروع ہوتا ہے اور استواء شمس کے وقت ہر چیز کا جو
سایہ ہوتا ہے وہ فَیِ زوال (اصلی شایہ ) کہلاتا ہے اس کے پہچانننے کا طریقہ یہ
ہےکہ ہموارزمین میں کوئی سیدھی لکڑی یا کیل گاڑھ دی جائے زوال سے پہلے اس کا جو
سایہ ہو گا وہ تدریجا گھٹتا رہے گا پھر یا تو بالکل ختم ہو جاے گا یا کچھ باقی رہے
گا۔(خط استواء سے قریب بعد کی وجہ سے فی زوال مختلف ہوتا ہے۔) اور گھٹنا بند ہو جائے گا یہی باقی ماندہ سایہ فی زوال (اصلی
سایہ ) ہے پھر وہ دوسری جانب بڑھنا شروع ہو گا جوں ہی بڑھنا شروع ہو سمجھ لینا
چاہئے کہ زوال شمس ہو گیا اور ظہر کا وقت شروع
ہو گیا ۔ اور ظہر کا وقت کب تک باقی رہتا ہے عصر کا وقت کب تک سے شروع ہوتا
ہے اس میں اختلاف ہے ، ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اور امام احمدؒ
اور صاحبین یعنی امام یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے، جب
ہر چیز کا سایہ فی زوال کو منہا کرنے کے بعد اس چیز کے بقدر ہو جائے، اصطلاح میں
اس کو ایک مثل(مانند) کہتے ہیں اور اس کے بعد فوراً عصر کا وقت شروع ہو تا ہے
دونوں وقتوں کے درمیان مشہور قول کے مطابق
نہ تو کوئی حد فاصل ہے نہ وقے مشترک۔