Saturday 30 May 2020

ہبہ کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے۔
عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ لایرجع احد فی ھبۃ الاالوالد من ولدہ (رواہ النسائی وابن ماجہ۔ مشکوٰۃ کتاب البیوع ص 261 جلد اول)۔
یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کوئی شخص کسی کو کوئی چیز ہبہ کر دے بخش دے پھر وہ اسے واپس نہیں لے سکتا۔ سوائے باپ کے کہ وہ اپنی اولاد سے اپنی ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے۔ اسی کے قریب قریب روایت ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذیؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں فرمان  رسولﷺ ہے کہ اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ یہ حدیث صاف ہے کہ ہبہ کی ہوئی چیز کوئی واپس نہیں لے سکتا۔
اعتراض:
پھر حنفی مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانا وہ کہتا ہے کہ واپس لے سکتا ہے۔ چنانچہ حنفی مذہب فقہ کی اعلیٰ اور بہترین کتاب ہدایہ کتاب الہبہ ص 273 میں ہے اذاوھب ھبۃ لا جنبی فلہ الرجوع فیھا
یعنی جو شخص کسی غیر شخص کو کوئی چیز ہبہ کرے تو اسے حق ہے کہ اسے واپس لے لے پس حدیث میں تو صاف ہے کہ اپنی ہبہ کی کوئی چیز واپس نہیں لے سکتا۔ اور حنفی مذہب میں صاف ہے کہ اپنی ہبہ کی ہوئی چیز والس لے سکتا ہے۔ حنفی بھائیو! بتلاؤ اب ایمان کس پر ہے؟ اور کفر کس سے ہے؟ کیا حدیث کو مان کر فقہ کو چھوڑو گے ؟ یا فقہ کو مان کر حدیث کو چھوڑو گے؟ (شمع محمدی ص 48، ظفرالمبین ص 207، فتھ المبین علی رد مذاہب المقلدین ص 133، سبیل الرسول ص 278، اختلاف امت کا المیہ ص 59

جواب:
صاحب شمع محمدی نے فقہ حنفی کا پورا مسئلہ بیان نہیں کیا اور نہ ہی احادیث کو پورا ذکر کیا ہے۔ فقہ حنفی کا مسئلہ یہ ہے اگر کوئی شخص کسی اجنبی (غیر محرم) کو کوئی چیز ہبہ کرے تو اس میں رجوع کا اختیار ہے لیکن اگر وہ لینے والا اس کا کوئی عوض (بدلہ) دےدے تو اختیار باقی نہیں رہتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہبہ کرنے والا اپنے ہبہ کا زیادہ حق دار ہے جب تک لینے والے کی طرف سے عوض نی پایا جائے اور دلیل عقلی یہ ہے کہ اجنبی کو کوئی چیز ہبہ کرنے سے عادتاً  مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ احسان کے راہ و رسم اختیار کرے لیکن اگر لینے والا اس مقصد کو پورا نہ کرے تو اس ہبہ کرنے والے کو فسخ کا اختیار ملنا چاہیئے۔ کیونکہ مقسود پورا نہ ہوا۔ لیکن یہ اختیار ہونے کے باوجود ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینا (مکروہ تحریمی) ہے کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کتا قے کر کے چاٹ لے اور یہ عادتاً بھی خلاف مروت و احسان ہے۔ (ملخصاً ہدایہ جلد 3 ص 287- 286)
حضرات آپ کو معلوم ہوا کہ ہبہ کا رجوع فقہ حنفی میں جائز بالکراہت ہے وہ بھی اس وقت تک جب تک کہ اس کا بدلہ نہ دے دیا گیا ہو اور اگر  بدلے میں کوئی نہ کوئی چیز دے دی تو پھر بالکل جائز نہیں۔ صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ کے جوز مین دو دلیلیں بیان فرمائی ہین ایک حدیث نبویﷺ اور ایک عقلی دلیل اور کراہت پر بھی دو دلیلیں بیان فرمائی ہیں ایک حدیث نبویﷺ اور دوسری دلیل عقلی۔ صاحب شمع محمدی نے ہدایہ سے مسئلہ نقل کرنے مین خیانت کی کہ جواز کا ذکر تو کیا مگر کراہت کا زکر تک نہیں کیا۔ جو حدیث صاحب ہدایہ نے جواز کی دلیل کے طور پر نقل فرمائی ہے وہ یہ ہے۔
(1) عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اللہ الرجل احق بہبۃ یثب منہا۔ (ابن ماجہ ص 174)
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ آدمی اپنے ہبہ میں رجوع کا اختیار رکھتا ہے جب تک عوض نہ ملے۔ اس مسئلہ کے مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
(2)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی کو کوئی چیز ہبہ کی وہ اس میں رجوع کا اختیار رکھتا ہے جب تک اس کا عوض نہ ملے لیکن ہ رجوع کرنا ایسا ہی ہے جیسے کتا قے کر کے چاٹ لے۔ (دارقطنی ۔ طبرانی)
(3) حضرت عبداللہ ابن عمروؓ فرماتے ہیں  کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص کوئی چیز ہبہ کرے وہ اس کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا عوض نہ ملے (مستدرک حاکم ج 2 ص 52)
(4) خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں جو شخص کسی غیر محرم کو  کوئی چیز ہبہ کرے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا عوض نہ پائے (طحاوی شریف ج 2 ص 266، 267)
(5) حضرت علیؓ فرماتے ہیں ہبہ کرنے والا زیادہ حقدار ہے جب تک اس کا عوض  نہ پائے (طحاوی ج 2 ص 267)
(6) حضرت ابوالدرداءؓ بھی ہبہ میں رجوع کو جائز  فرماتے تھے (طحاوی ج 2 ص 267)
(7، 8، 9، 10) حضرت عمر بن عبدالعزیز، قاضی شریح، حضرت امام سعید بن المسیب اور امام ابراہیم نخعیؒ، چاروں سے صحیح سندوں سے یہی  روایت ہے (المحلیٰ ابن حزم ج 9 ص 129، 130) اور یہی مسلک؛
(11) مکہ مکرمہ کے فقیہ حضرت عطاء اور؛
(12) مدینہ منورہ کے مفتی حضرت ربیعۃ الرائی وغیرہ تابعین کا ہے (المحلیٰ ج 1 ص 130)
اس لا مذہب کا یہ اعتراض صرف امام ابوحنیفہؒ پر ہی نہیں بلکہ حضرت عطاء، حضرت ربیعۃالرائی، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت امام ابراہیم النخعیؒ، حضرت امام اسعیدبن المسیبؒ اور حضرت قاضی شریح پر پہنچتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر خلفائے راشدین خصوصاً حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے اور پھر سید کائنات فخر موجودات حضرت محمد رسول اللہﷺ تک پہنچتا ہے۔ آہ ! حنفیت کی ضد میں یہ شخص کیسا اندھا ہو رہا ہے۔
نوٹ:- کتے کا ق چاٹ لینا شرعاً حرام نہیں کیونکہ وہ مکلف نہیں اگرچہ طبعاً نہایت خبس اور قبیح حرکت ہے لیکن غیر مقلدین کے مذہب میں کتا خود بھی پاک ہے (عرف الجادی ص 10) اس کی قے اور خون بھی پاک ہے (بدرالاہلہ ص 17) کتا کنویں میں گر کر مر جائےتو کنواں ناپاک نہیں ہوتا۔(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 200 فتاوی علمائے حدیث ج 1 ص 11) البتہ بچوں کی گیند کھیلتے ہوئے کنویں میں گر جائے تو کنواں ناپاک ہو گیا۔ اب تاوقتیکہ تمامو کمال پانی نہ نکلے پاک نہین ہو گا۔ (فتاوی نذیریہ ج 1 ص 202، فتاوی علمائے حدیث ج 1 ص 18) اگر کسی کی جوتی گر جائے تو سارا پانی کنویں کا نکالنا ہو گا۔ (فتاوی نذیریہ ج 1 ص 202، فتاوی علمائے حدیث جق ص 19)۔ ان فتاوی کے لیے حدیث صحیح صریح غیر معارض پیش فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment