Friday 29 May 2020

جانور کےپیٹ کے بچے کے ذبیحہ کا مسئلہ

صاحب شمع محمدی نے ایک حدیث نقل کی ہے
عن جابر ان النبی ﷺ قال ذکوۃ الجنین ذکوۃ امہ ( رواہ ابو داؤد والدارمی وراوہ الترمذی عن ابی سعید مشکوۃ صفحہ350 جلد ب)
دارقطنی ۔ ابن ماجہ اور مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں پیٹ کے اندر کے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے یعنی کسی جانور کو ذبح کیا اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلا تو وہ بھی اس کی ماں کے ذبیحہ میں ہی داخل ہے اور اس کا کھانا حلال ہے یہ حدیث صاف ہے کہ جس جانور کو ذبح کریں اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے اس کا کھانا حلال ہے وہ ذبح شدہ ہے ابوداؤد میں یہ بھی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا  کہ ہم کسی مادہ کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلتا ہےتو کیا اسے کھالیں یا پھینک دیں ؟؟آپ نے فرمایا کھالو اس کی ماں کا ذبیحہ اس کا ذبیحہ ہے ۔
اعتراض
پھر حنفی مذہب  پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
لیکن حنفی مذہب اس حدیث کو نہیں مانتا ۔ حنفیوں کی سب اعلیٰ اور سب سے زیادہ  معتبر کتاب ہدایہ کتاب الذبائح صفحہ 424 میں ہے ومن نحر ناقۃ او ذبح بقرۃ فوجد فی بطنھا جنینا میتا لم یؤکل اشعر اولم یشعر
یعنی جس نے اونٹنی کو گائے کو ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلا تو اسے نہ کھایا جائے خواہ ذبح کرنیوالے کو اس کا علم ہو یا نہ ہو ۔ حنفی بھائیوں ،حدیث بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ اسے  نہ مانیں گے ؟؟چھوڑ دیں گے ؟؟ اور جو فقہ میں ہے اسے لے لیں گے ؟؟ اور اسی پر ایمان رکھیں گے ؟؟
(شمع محمدی ص44 ظفر المبین حصہ اول ص 218 ، فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین ص56 و ص 133 )
الجواب
امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے کی دلیل یہ ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کے تمام مراحل طے کر لیتا ہے اور اس میں روح پڑ جاتی ہے تو اب وہ محض ماں کے بدن کا ایک جزو نہیں رہتا بلکہ ایک مستقل وجود بن جاتا ہے چنانچہ شریعت بھی اس کا اعتبار ایک مستقل وجود کے طور پر کرکے یہ قرار دیتی ہے کہ اگر کوئی شخص حاملہ عورت کو قتل کردے تو ماں کے قصاص یا دیت کے علاوہ اس کے پیٹ میں موجود بچے کی بھی الگ دیت لازم آئے گی ۔ ( صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 62 )
اور فقہاء کے ہاں یہ مسلم ہے کہ ماں کے پیٹ کے اندر بچے میں روح پڑنے سے پہلے تو کسی شدید ضرورت کی بنا پر حمل گرانا جائز ہے ۔ لیکن بچے میں روح پڑجانے کے بعد حمل گرانا قتل کے حکم میں آتا ہے ۔چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ جب عقلا و شرعا جانور اور اس کے پیٹ کا بچہ دو الگ الگ وجود ہیں تو ایک کو ذبح کرنے سے دوسرا حلال نہیں ہوسکتا ۔ تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ ذبح نہیں ہوتا   کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اس کے پیٹ سے زندہ نکل آتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ جانور کے پیٹ میں موجود بچہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے ذبح نہیں ہوتا بلکہ ماں کی موت کے بعد سانس رک جانے کی وجہ سے دم گھٹ کر مرجاتا ہے اور یہی چیز ہے کہ جس کو قرآن نے نام لے کر حرام قرار دیا ہے ۔
(1) حرمت عليكم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما أهل لغير الله به والمنخنقة والموقوذة والمتردية والنطيحة وما أكل السبع إلا ما ذكيتم ... الآیۃ( سورۃ مائدہ آیت نمبر 3 )
تم پر حرام کئے گئے ہیں مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جانور کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مرجاوےاور جو اونچے سے گر کر مرجاوے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے اور جس کوکوئی درندہ کھانے لگے ۔ لیکن جس کو ذبح کرڈالو ۔
اس لئے امام ابو حنیفہ ؒ جانور کے پیٹ سے مردہ نکلنے والے بچے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ چونکہ اس کی ( یعنی مردہ نکلنے والے بچے ) کی حرمت نص قرآنی سے ثابت ہے قرآن نے میتہ کو حرام کہا ہے اور یہ میتہ ہے ۔
(2) امام ابراہیم نخعی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک جان کا ذبح کرنا دو جانوں کے قائم مقام نہیں ہوتا  ۔ ( موطا  امام محمد )
جونا گڑھی کی ذکر کردہ  احادیث کا  ایسا مفہوم لینا ضروری ہے جو قرآن کے حکم کے خلاف نہ ہو چنانچہ ان احادیث کی دو توجہیں کی گئی ہیں ۔

پہلی توجیہ یہ ہے کہ اس بچے کے بارے میں ہے جس کے اندر بھی روح  نہ ڈالی گئی ہو ۔ روح ڈالنے سے قبل چونکہ وہ کوئی الگ زندہ وجود نہیں ہوتا بلکہ محض ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے اس لئے ذبح کرنے میں بھی وہ ماں کے تابع ہوگا ۔ علامہ ابن حزم کی روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کا فتویٰ بھی اس صورت میں یہی ہے البتہ روح پڑ جانے کے بعد اس کو ماں کے تابع قرار دینا مذکورہ بالا دلائل کے پیش نظر ممکن نہیں ۔ اس لئے اس صورت میں یہ ماں کے ذبح کرنے سے حلال نہیں ہوگا ۔
دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس حدیث کے الفاظ کا ترجمہ عربی زبان کی رو جیسے ہوسکتا ہے جو جونا گڑھی نے کیا ہے اسی طرح یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ ۔ جانور کے پیٹ کے بچے کو ذبح کرنا اس کی ماں کو ذبح کرنے ہی کی طرح ہے ۔
یعنی جس طرح جانور کو ذبح کیا گیا ہے اسی طرح اس کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی ذبح کرنا ضروری ہے اس کے بغیر وہ حلال نہیں ہوگا ۔اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جانور کے پیٹ سے مردہ نکلنے والا بچہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذبح ہوجانے کے بعد دم گھٹنے سے اور سانس رک جانے کی وجہ سے وہ مرجاتا ہے اور قرآن مجید نے ایسے جانور کو حرام قرار دیا ہے اس لئے حدیث کو یا تو اس جانور پر محمول کیا جائے گا کہ جانور کی طرح اس کے بچے کو بھی ذبح کرنا ضروری ہے ( امام ابو حنیفہ ؒ اور عمل بالحدیث صفحہ 117 ) تفصیل کے لئے دیکھئے فتح المبین فی کشف مکائد غیر المقلدین صفحہ 258 )
نوٹ ۔ جونا گڑھی کا یہ کہنا کہ فقہ  حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے  کتنی غلط بیانی ہے ۔ امام صاحب کا استدلال تو قرآن سے ہے اور اسی حدیث کا مفہوم جو امام صاحب لیتے ہیں وہ قرآن کے عین مطابق ہے ۔ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ قرآن اور حدیث کے مطابق ہے ۔

No comments:

Post a Comment